Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

 ”دادی جان چائے لاؤں آپ کیلئے؟“ پری نے خاموش لیٹی دادی سے پوچھا۔
”نہیں دل نہیں چاہ رہا۔“ وہ آہستگی سے گویا ہوئیں۔
”حیرت ہے آپ کا دل چائے کیلئے انکار کر رہا ہے دادی جان۔“ وہ محبت سے کہتی ہوئی ان کے قریب بیٹھ گئی۔ انہوں نے پری کے چہرے کو دیکھا اور دیکھتی رہیں اس وقت تک جب تک آنکھوں بھرنہ آئیں نمی نے اس کا چہرہ دھندلا نہ دیا۔
”دادی جان آپ رو رہی ہیں۔ کیا ہوا کیوں رو رہی ہیں آپ؟“ وہ ان کے آنسو دیکھ کر تڑپ کر بولی۔
”تمہاری صورت کتنی پیاری بنائی ہے پروردگار نے۔ کاش تمہارا مقدر بھی تم سے زیادہ خوبصورت ہوتا تو میں چین سے مر جاتی۔“ وہ زار و قطار رونے لگی تھیں۔ ان کا ساتھ وہ بھی دینے لگی۔
”آپ میرے پاس ہیں اس سے زیادہ خوش بختی میری کیا ہو گیا۔


”میں تیرے پاس کب تک ہوں بیٹی،ہواؤں میں رکھا چراغ ہوں کب بجھ جاؤں کوئی بھروسہ نہیں ہے میرا۔“
”کچھ نہیں ہوگا آپ کو دادی جان،کچھ نہیں ہوگا۔“ وہ ان سے لپٹ کر رونے لگی تب ہی فیاض اور طغرل وہاں آئے تھے۔
”ارے کیا ہوا خیریت تو ہے اماں۔“ فیاض گھبرا کر آگے بڑھے اور ساتھ طغرل بھی پری ان کو دیکھ کر کھڑی ہو گئی تھی۔
”اس بار تو آپ نے بیماری کو اپنے اوپر حاوی کر لیا ہے آپ ٹھیک ہو گئی ہیں اماں جان خوش رہا کریں۔
“ فیاض ٹشو سے ان کے آنسو صاف کرتے ہوئے بشاشت سے کہہ اٹھے۔
”کتنا جیوں گی میں،بہت مختصر سی زندگی ہے میری اب۔“
”ابھی تو بہت جینا ہے آپ کو دادی جان۔ آپ کی عمر ہی کیا ہے ابھی۔“ دوسری سائیڈ سے طغرل ان کے قریب بیٹھتے ہوئے شوخ لہجے میں بولا۔ پری ان کو وہاں دیکھ کر چلی گئی تھی۔
”فیاض میں اس بار ہمت ہار بیٹھی ہوں میں چاہتی ہوں تم میری زندگی میں پری کے فرض سے سبکدوش ہو جاؤ۔
“ وہ نقاہت سے بھرے لہجے میں ان سے مخاطب ہوئی تھیں۔
”آپ ہی تو ہمارا سہارا ہیں اماں جان۔ اگر آپ ہمت ہار بیٹھیں تو ہم خود بخود ٹوٹ جائیں گے۔“ فیاض ان کے ہاتھوں کو چومتے ہوئے گویا ہوئے۔
”تم کو ہمت سے کام لینا ہوگا میرے بچے،ماں باپ کب سدا سلامت رہتے ہیں اب تم کو حوصلہ کرنا ہوگا۔ بس میری تم سے یہی التجا ہے میری حیات میں پری کی شادی کر دو،اپنوں سے کوئی امید کوئی آسرا مت رکھنا پری کو بہو بنانے کیلئے کوئی دامن نہیں پھیلائے گا۔
اس کیلئے تم کو برادری سے باہر ہی کوئی لڑکا دیکھنا ہوگا۔“ وہ گلوگیر لہجے میں کہہ رہی تھیں۔ فیاض کے چہرے کا رنگ متغیر ہو چکا تھا جبکہ طغرل بھی گردن جھکائے بیٹھا تھا۔ پری کے نام پر دل میں ایک ان دیکھی آگ سی بھڑک اٹھی تھی۔
”میری بیٹی میں کیا عیب ہے اماں جان،وہ تعلیم یافتہ ہے حسین ہے کوئی کمی نہیں ہے اس میں پھر میری بیٹی کے ساتھ اچھوت جیسا برتاؤ کیوں ہے؟ میری بیٹی کو کوئی بہو کیوں بنانا نہیں چاہتا؟“ وہ کرب زدہ لہجے میں گویا ہوئے۔
”وہ ایک ایسی ماں کی بیٹی ہے جو گھر نہ بسا سکی۔“
”اس میں اتنا ہی قصور میرا بھی تھا مثنیٰ تنہا قصور وار نہ تھی۔“ وہ بے بسی بھرے لجے میں گویا ہوئے۔
”قصور وار صرف عورت ہی سمجھی جاتی ہے۔“
”پری کا اس سارے قصے میں کیا قصور ہے اماں؟“ وہ رو دینے کو تھے بڑی شدت سے دل پر چوٹ لگی تھی۔
”وہ مثنیٰ کی بیٹی ہے اور بیٹیاں ماں کے چلن سے پہچانی جاتی ہیں۔
“ اماں کی آواز آنسوؤں سے بوجھل ہو رہی تھی ان کی سماعتوں میں مذنہ کے کہے گئے جملے گونجے رہے تھے۔ ان کے آگ لگائے زخم زخم کرتے کرتے لفظوں نے ان کا دل دکھ و رنج سے بے قابو کر دیا تھا اور وہ ایک ہفتہ ہسپتال میں گزار کر آئی تھیں۔
”میری پری تو بہت اچھی لڑکی ہے وہ جس گھر جائے گی اس گھر کو جنت بنا دے گی۔ آپ بتائیں نا اماں لوگوں کو میری اور مثنیٰ کی غلطیوں کو سزا وہ کب تک بھگتی رہے گی۔
“ وہ خاصے مضطرب و بے چین دکھائی دے رہے تھے۔ ان کی بے ساختہ نگاہیں طغرل پر اٹھ رہی تھیں۔ وہ کہہ نہ پا رہے تھے اماں نے بھی ان کی کیفیت محسوس کرتے ہوئے کہا۔
”مذنہ نے طغرل کی رشتے کی بات اپنی بھتیجی وانیہ سے طے کر دی ہے۔ بہت جلد وہ لوگ رسم کیلئے پاکستان آئیں گے اور میں چاہتی ہوں ساتھ ہی پری کی بھی ہم شادی کر دیں۔ دو خوشیاں ایک ساتھ ہو جائیں گی اور میرے دل کو بھی سکون مل جائے گا۔
“ بہت احتیاط و دانشمندی سے اماں جان نے ان کے کان میں بات ڈالی تھی اور دانستہ بیٹے کے چہرے سے نگاہیں جھکالی تھیں کہ وہ ان کے دھواں دھواں چہرے کو دیکھ نہیں سکتی تھیں۔
”مجھے ایک ضروری کام یاد آ گیا ہے اماں جان۔ میں پھر آپ کے پاس آؤں گا۔ آپ فکر مت کریں۔ پری کیلئے رب نے کوئی جوڑ بنایا ہوگا جب اس کا حکم ہوگا وہ بھی اپنے گھر کی ہو جائے گی۔
“ وہ جبراً مسکراتے ہوئے بولے۔
”آپ نے اتنی بڑی خوش خبری ہم سے چھپا کر رکھی۔ ڈونٹ وری مجھے خوشی ہوئی آپ کو بہت بہت مبارک ہو مائی سن۔“ انہوں نے جھک کر اس کی پیشانی چومتے ہوئے کہا اور اس کے کچھ بولنے سے قبل ہی وہاں سے چلے گئے۔
”دادی جان،دس از ناٹ فیئر بہت برا کیا ہے آپ نے میرے ساتھ۔ آپ کو اس طرح غلط بیانی سے کام لینے کی کیا ضرورت تھی؟“ وہ ان سے سخت خفگی بھرے انداز میں گویا ہوا۔
”میں کیوں جھوٹ بولوں گی تمہاری ماں اس آدھی انگریز لڑکی سے تمہاری شادی کرانے کیلئے اتاؤلی نہیں ہو رہی ہے کیا؟“
”پہلے آپ اپنے جملے کو درست کیجئے میں نے جھوٹ نہیں غلطی بیانی کہا ہے۔“ اس کا موڈ بدستور آف تھا۔
”غلط بیانی یا جھوٹ ایک ہی بات ہے کان ایسے پکڑو یا ویسے کان… کان ہی کہلاتا ہے مجھے لفظوں کے جال میں مت الجھاؤ۔
”ایک بات بالکل سچ سچ بتائیں گی آپ دادی جان۔“ اس کے ذہن میں جھماکا سا ہوا تھا وہ سنجیدگی سے استفسار کرنے لگا۔
”میں جھوٹ بولتی ہی کب ہوں۔“
”آئی نو بات کو گھومائیں گی پھر آئیں گی تو نہیں نا؟“
”اوے کیا ہوا ہے تجھے اب حلف لینے کی کسر باقی رہ گئی ہے بس جو پوچھنا ہے پوچھ یہ وکیلوں کی طرح جراح کیوں کر رہا ہے؟“ بیماری نے ان کو سخت چڑاچڑ بنا دیا تھا وہ چڑ کر بولیں۔
”مما نے کال کی تھی آپ کو کچھ دن پہلے؟“ وہ ازحد سنجیدہ تھا۔
”اس میں اتنی بحث کرنے کی کیا بات ہے وہ فون کرتی رہتی ہے کل بھی فون کیا تھا تمہاری ماں نے۔“
”میں کل کی نہیں اس دن کی بات کر رہی ہوں جب آپ کی طبیعت خراب ہوئی تھی۔ مما نے کہا ہوگا میں ان کو پارس کیلئے کہہ رہا تھا اور وہ اس کو بہو بنانا نہیں چاہتی ہیں اور انہوں نے آپ کے جذبات کا قطعی خیال نہ کرتے ہوئے کہہ دیا ہوگا۔
مجھے آپ کو وانیہ سے شادی کرنے پر راضی کریں۔ یہی بات ہوئی ہوگی نا دادی جان۔“ اس کے لہجے میں غم و غصے کی آج سی سلگ اٹھی تھی۔
”یہ کوئی ایسی معیوب بات بھی نہیں ہے جس پر بہو کی گرفت کی جائے ہر ماں کی طرح اس کے بھی خواب ہیں تمہارے حوالے سے۔“ وہ صاف اقرار کر سکیں نہ انکار سو مبہم لہجے میں گویا ہوئی تھیں۔ اس لمحے طغرل کے دل میں ماں کی اس بے حسی و خود پرستی کے خلاف شدید رنجش ابھر آئی تھی۔
”تم پری کی فکر مت کرو وہ خوبصورت ہے جوان و سگھڑ ہے برادری میں نہ سہی برادری سے باہر اس کی طلب کرنے والے بہت ہیں کئی مرتبہ تو شیری کی ماں اشاروں اشاروں میں اپنی خواہش ظاہر کر چکی ہیں پری کیلئے مگر میرے سپاٹ رویے کے باعث وہ کھل کر اپنا مدعا بیان نہ کر سکی تھی کہ وہ میرے مزاج کو جانتی ہے۔“
”پارس اور شہریار… شہریار اور پارس۔
“ وہ بڑبڑایا۔
”کیا حرج ہے بھلا طغرل وہ بھی تمہاری طرح ہی باہر سے پڑھ لکھ کر آیا ہے اخلاق اچھا ہے اس کا پھر شکل و صورت کا برا نہیں ہے خاندان بھی اعلیٰ ہے روپے پیسے کی کوئی کمی نہیں ہے پری کو خوش رکھے گا وہ۔“ وہ اپنی ترنگ میں کہہ رہی تھیں۔
”طغرل گویا ان دیکھی آگ میں جلنے لگا اپنے علاوہ پری پر وہ کسی کی پرچھائی بھی دیکھنے کی ہمت نہ رکھتا تھا یہاں تو دادی نے پل بھر میں اس کو پری سے جدا کر ڈالا تھا۔
شیری کے دلی جذبات سے وہ آگاہ تھیں شیری کی دیوانگی اس کی نگاہوں سے چھپی نہ تھی۔
”ارے بیٹا تم کو کیا ہوا ہے یہ تمہارا چہرہ کیوں سرخ ہو گیا ہے؟“ اس کو لال چہرہ لئے اٹھتے دیکھ کر وہ چونکی تھیں۔
”کچھ نہیں۔“ وہ اٹھا اور سرعت سے کمرے سے نکل گیا۔
”میرے بچے اللہ تم کو صبر و استقامت دے میں نے ازخود تم سے شیری اور پری کا ذکر چھیڑا ہے میں جانتی ہوں پری کا نام کسی اور مرد کے ساتھ سننا تمہارے لئے کسی اذیت سے کم نہیں ہے لیکن کیا کروں میں بھی مجبور ہوں اپنی دیرنہ آرزو کے باوجود پری کو تمہاری دلہن نہیں بنا سکتی میں نہیں چاہتی وقت ایک بار خود کو پھر سے دہرائے یا پھر کسی پری کا جنم ہو اور محرومیوں بھری زندگی کسی کا مقدر بنے۔
“ وہ طغرل کے دلی جذبات سے پوری طرح واقف تھیں۔ اس کے جانے کے بعد وہ سوچ رہی تھیں۔ آنسو آنکھوں سے بہہ کر ان کے تکیے میں جذب ہو رہے تھے اس بار پوری شدت سے اس کو پری کا دکھ لگ گیا تھا۔

   1
0 Comments